نظم - خواب
تارے جب سو جاتے ہیں سبھی غم غلط ہو جاتے ہیں ِہجر کی راتوں میں اکثر مرے افکار سمندر ہو جاتے ہیں اُس کی یاد ستاتی ہے مجھے اور انتظار طویل ہو جاتے ہیں خیالوں میں وہ بسی ہے یوں اندازے اُلٹ ہو جاتے ہیں اُس کی باتوں سے اکثر درُشت لمحے گل و گلزار ہوجاتے ہیں اُس کی خوشبو سے دشت بھی گویا باغ و بہار ہو جاتے ہیں اُس کی ناراضگی سے مرے ہواس باختہ ہو جاتے ہیں اُس کی خوشی واسطے مرے دست ہمیشہ وا ہو جاتے ہیں غوری پرُ اُمید ہے کہ خواب جلد یا بدیر پورے ہوجاتے ہیں